جشن میلاد النبی منانا کیسا ہے قران و حدیث کی روشنی میں
اچھا سوال ہے۔ 🌹
"میلاد النبی" کے بارے میں قرآن و حدیث میں براہِ راست کوئی صریح حکم یا طریقہ موجود نہیں کہ حضور ﷺ کی ولادت کا جشن سالانہ طور پر منایا جائے۔ لیکن نبی کریم ﷺ کی ولادت کی خوشی اور ذکر کئی احادیث سے ثابت ہے۔ اہلِ علم نے انہی احادیث کی روشنی میں میلاد النبی کو خوشی اور شکرانے کے طور پر درست کہا ہے۔
چند اہم دلائل حدیث سے:
1. نبی ﷺ کا پیر کے دن روزہ رکھنا
رسول اللہ ﷺ سے پیر کے دن روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:
> "یہ وہ دن ہے جس دن میں پیدا ہوا تھا اور اسی دن مجھے نبوت ملی"
(صحیح مسلم، کتاب الصیام)
➝ اس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ اپنی ولادت کی یاد اور شکرانے کا اہتمام فرماتے تھے۔
2. آپ ﷺ کا اپنے آپ کو اللہ کی نعمت قرار دینا
قرآن کہتا ہے:
> "لقد منّ الله على المؤمنين إذ بعث فيهم رسولا" (آل عمران: 164)
➝ رسول اللہ ﷺ اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہیں۔ نعمت پر خوشی اور شکر منانا سنت ہے۔
3. حبشہ والوں کا مسجدِ نبوی میں دف بجا کر خوشی منانا
سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
> "حبشی مسجد میں کھیل رہے تھے، نبی ﷺ خود دیکھ رہے تھے اور مجھے بھی دکھایا۔"
(صحیح بخاری و مسلم)
➝ اس سے معلوم ہوا کہ خوشی کے اظہار کی اجازت ہے اگر شریعت کے خلاف نہ ہو۔
---
خلاصہ:
براہِ راست "میلاد" منانے کا حکم یا طریقہ حدیث میں موجود نہیں۔
لیکن نبی ﷺ کی ولادت پر خوش ہونا، شکر ادا کرنا، ذکر و درود پڑھنا، قرآن کی تلاوت اور صدقہ کرنا — یہ سب چیزیں احادیث سے ماخوذ ہیں۔
اگر میلاد النبی ﷺ میں ناجائز امور (موسیقی، رقص، اسراف وغیرہ) شامل نہ ہوں تو اہلِ علم نے اسے "جائز" اور بعض نے "مستحب" کہا ہے۔
جی بالکل 🌹
میں آپ کو وہ صحیح احادیث (عربی متن + اردو ترجمہ + حوالہ) دیتا ہوں جو میلاد النبی ﷺ کی خوشی منانے کے جواز کی بنیاد بنتی ہیں:
---
1. پیر کے دن روزے کی حدیث
عَن أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ
أَنَّ رَسُولَ الله ﷺ سُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الِاثْنَيْنِ، فَقَالَ:
«فِيهِ وُلِدتُّ، وَفِيهِ أُنزِلَ عَلَيَّ»
(صحيح مسلم، كتاب الصيام، حديث: 1162)
📖 ترجمہ:
ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پیر کے دن کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
"اسی دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی۔"
➝ اس سے پتا چلا کہ آپ ﷺ اپنی ولادت کی یاد کو شکرانے اور عبادت کے ذریعے مناتے تھے۔
---
2. اللہ کی نعمت کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى:
﴿لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ﴾
(سورۃ آلِ عمران، آیت: 164)
📖 ترجمہ:
"یقیناً اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا جب ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا۔"
➝ رسول اللہ ﷺ اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہیں، اور نعمت پر خوشی اور شکر منانا سنت ہے۔
---
3. حبشیوں کا مسجد میں خوشی منانا
عَن عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا
أَنَّ الْحَبَشَةَ كَانُوا يَلْعَبُونَ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَسَتَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِمْ...
(صحيح البخاري، كتاب العيدين، حديث: 950 / صحيح مسلم: 892)
📖 ترجمہ:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"حبشی لوگ مسجدِ نبوی میں کھیل تماشا کر رہے تھے، نبی ﷺ نے مجھے اپنی اوٹ میں لے کر دکھایا۔"
➝ اس سے پتا چلا کہ جائز حدود میں خوشی کا اظہار دین میں منع نہیں۔
---
خلاصہ
نبی ﷺ نے اپنی ولادت کے دن کو عبادت (روزہ) کے ذریعے یاد فرمایا۔
قرآن میں آپ ﷺ کی بعثت کو "اللہ کا عظیم احسان" کہا گیا۔
نبی ﷺ کے سامنے خوشی کا اظہار کیا گیا اور آپ ﷺ نے منع نہیں فرمایا۔
لہٰذا میلاد النبی ﷺ اگر عبادت، ذکر، درود، صدقہ اور قرآن خوانی کے ساتھ ہو، تو یہ احادیث اس کے جواز کی اصل ہیں۔

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں