خدا کی قسم ہے، فلاح کے گھر نہیں جاوں گا
قسم ہے فلاح کے گھر نہیں جاؤں گا
قسم کھانا ایک نہایت سنجیدہ اور ذمہ داری کا عمل ہے۔
انسان جب اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر کوئی بات کہتا ہے تو یہ معمولی چیز نہیں رہتی بلکہ ایک عہد بن جاتا ہے۔
قرآن و حدیث میں قسم کے بارے میں بڑی سخت تاکید آئی ہے کہ جھوٹی قسم نہ کھائی جائے اور نہ ہی فضول باتوں پر قسم اٹھائی جائے۔
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ "قسم ہے میں فلاں کے گھر نہیں جاؤں گا" تو یہ اصل میں ایک نیت اور عزم کی بات ہے۔ اب اس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں انسان اپنی قسم توڑ دے گا، اور شریعت نے اس کے کفارے کا حکم دیا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے:
> "اللہ تعالیٰ تمہاری لغو قسموں پر مؤاخذہ نہیں فرماتا، لیکن جو قسم تم دل سے کھاؤ گے ان پر مؤاخذہ فرمائے گا۔ اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا، یا انہیں کپڑے دینا، یا ایک غلام آزاد کرنا ہے۔ اور جس کو یہ میسر نہ ہو وہ تین دن کے روزے رکھے۔"
(سورۃ المائدہ: 89)
اس لیے اگر کوئی شخص جذبات میں آ کر یہ کہہ دے کہ "میں فلاں کے گھر نہیں جاؤں گا" تو بہتر ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے۔ ہو سکتا ہے کہ بعد میں اسے وہاں جانے کی ضرورت پیش آئے یا رشتہ داری کے ناطے جانا واجب ہو۔ ایسی صورت میں قسم توڑنی پڑے گی اور کفارہ دینا ہوگا۔
سبق
قسم ہمیشہ سوچ سمجھ کر کھانی چاہیے۔
چھوٹی چھوٹی باتوں پر قسم کھانے سے بچنا چاہیے۔
اگر رشتے داروں کے ساتھ تعلقات رکھنے کی بات ہو تو اسلام صلہ رحمی کی تاکید کرتا ہے، اس لیے قطع تعلق کے لیے قسم کھانا مناسب نہیں۔
قسم ہے فلاح کے گھر نہیں جاؤں گا
قسم کھانا ایک نہایت سنجیدہ اور ذمہ داری کا عمل ہے۔ انسان جب اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر کوئی بات کہتا ہے تو یہ معمولی چیز نہیں رہتی بلکہ ایک عہد بن جاتا ہے۔ قرآن و حدیث میں قسم کے بارے میں بڑی سخت تاکید آئی ہے کہ جھوٹی قسم نہ کھائی جائے اور نہ ہی فضول باتوں پر قسم اٹھائی جائے۔
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ "قسم ہے میں فلاں کے گھر نہیں جاؤں گا" تو یہ اصل میں ایک نیت اور عزم کی بات ہے۔ اب اس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں انسان اپنی قسم توڑ دے گا، اور شریعت نے اس کے کفارے کا حکم دیا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے:
> "اللہ تعالیٰ تمہاری لغو قسموں پر مؤاخذہ نہیں فرماتا، لیکن جو قسم تم دل سے کھاؤ گے ان پر مؤاخذہ فرمائے گا۔ اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا، یا انہیں کپڑے دینا، یا ایک غلام آزاد کرنا ہے۔ اور جس کو یہ میسر نہ ہو وہ تین دن کے روزے رکھے۔"
(سورۃ المائدہ: 89)
صحابہ کرام کا واقعہ
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنی بیٹی حضرت عائشہؓ پر تہمت لگانے والے اپنے ایک رشتہ دار کو یہ کہہ کر خرچ دینا بند کر دیا کہ اب میں اس کی مدد نہیں کروں گا۔ یہ بھی ایک قسم کی صورت تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حکم نازل فرمایا:
> "اور اہلِ فضل و ثروت کو یہ لائق نہیں کہ وہ قسم کھا لیں کہ اپنے رشتہ داروں، محتاجوں اور مہاجرین کو کچھ نہ دیں۔ بلکہ انہیں چاہیے کہ معاف کریں اور درگزر کریں۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کر دے؟"
(سورۃ النور: 22)
یہ آیت سن کر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فوراً اپنی قسم توڑ دی اور دوبارہ اپنے رشتہ دار کی مدد شروع کر دی۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ رشتہ داروں سے تعلق توڑنے یا ناراضی کی بنیاد پر قسم کھانا درست نہیں، بلکہ تعلقات کو جوڑنا اور معاف کرنا افضل ہے۔
سبق
قسم ہمیشہ سوچ سمجھ کر کھانی چاہیے۔
رشتہ داری کے تعلق میں قسم کھانا درست نہیں۔
اگر کوئی ایسی قسم کھا لے جس سے صلہ رحمی ٹوٹتی ہو تو بہتر ہے کہ وہ قسم توڑ کر کفارہ دے دے۔
اللہ تعالیٰ معاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں